Saturday, April 2, 2022

رب کے بندوں میں سب سے معزز کون ہے؟


رب کے بندوں میں سب سے معزز کون ہے؟ 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَالَ مُوسَى بْنُ عِمْرَانَ عَلَيْهِ السَّلَامُ: يَا رَبِّ، مَنْ أَعَزُّ عِبَادِكَ عِنْدَكَ؟ قَالَ: مَنْ إِذَا قَدَرَ غَفَرَ " ( ’’مشکوۃ المصابیح‘‘، ج۲، ص۲۳۴، رقم الحدیث۵۱۱۹)

حضرت ابوہریرہ ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے ایک مرتبہ بارگاہ الہی میں عرض کیا کہ اے میرے رب تیرے نزدیک تیرے بندوں میں سب سے معزز کون ہے؟ فرمایا ، وہ شخص جو طاقت رکھتے ہوئے معاف کردے۔

منظوم ترجمہ:صبا اکبر آبادی

کہا اللہ نے موسیٰ سے میرے سارے بندوں میں

معزز بھی وہی ہے اور وہ ہے سب سے اچھا بھی

کرے جو درگزر دنیا میں لوگوں کی خطاؤں سے

رکھے طاقت جو بدلے کی مگر بدلا نہ لے کوئی

 

 

رمضان المبارک میں معمولاتِ نبوی ﷺ

 



رمضان المبارک کے ماہ سعید میں حضور نبی اکرم ﷺ کے معمولاتِ عبادت و ریاضت اور مجاہدہ میں عام دنوں کی نسبت بہت اضافہ ہو جاتا۔ اس مہینے اﷲ تعالیٰ کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اور اسی شوق اور محبت میں آپ ﷺراتوں کا قیام بھی بڑھا دیتے۔ اس مہینے میں اللہ تعالی کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اسی شوق اور محبت میں آپ ﷺ راتوں کے قیام کو بھی بڑھا دیتے۔ جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ ﷝ سے مروی ہے :

کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ إذَا دَخَلَ رَمَضَانَ لَغَيَرَ لَوْنُهُ وَ کَثُرَتْ صَلَا تُهُ، وابْتَهَلَ فِي الدُّعَاءِ، وَأَشْفَقَ مِنْهُ.(بيهقی، شعب الايمان، رقم : 3625)جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو رسول اﷲ ﷺکا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا، آپ ﷺکی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔

ذیل میں حضور نبی کریم ﷺ کے انہیں معمولات کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ ہم بھی حضور نبی کریم ﷺ کے اسوہ پر عمل کر کے اس مہینے کی برکتوں اور سعادتوں کو لوٹ سکیں۔

حضور ﷺ کےمعمولات کا اجمالی جائزہ

1.      اجمالی طور پر حضور اکرم ﷺ کے معمولات رمضان المبارک کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

2.      صیامِ رمضان: اس سے مراد ماہ رمضان کے دوران اپنے اوپر روزوں کی پابندی کو لازم ٹھہرا لینا ہے۔

3.      قیامِ رمضان: رمضان المبارک کی راتوں میں نماز تراویح‘ تسبیح و تہلیل اور کثرت سے ذکر و فکر میں مشغول رہنا۔

4.      ختم قرآن: دورانِ ماہ رمضان المبارک مکمل قرآن پاک کی تلاوت کا معمول۔

5.      اعتکاف: رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے ایام بہ نیت اعتکاف مسجد میں بیٹھنا۔

6.      نمازِتہجد: سال کے بقیہ مہینوں کی نسبت رمضان المبارک میں نماز تہجد کی ادائیگی میں زیادہ ذوق و شوق کا مظاہرہ۔

7.      صدقہ و خیرات:حضور نبی کریم ﷺ اس مہینے میں عام مہینوں کی نسبت صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کیا کرتے تھے۔

رمضان المبارک  میں معمولاتِ نبوی ﷺ کاتفصیلی جائزہ

 روزے میں سحر ی و افطاری کا معمول

رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ سحری و افطاری بے شمار فوائد اور فیوض و برکات کی حامل ہے۔ حضور ﷺ بالالتزام روزے کا آغاز سحری کے کھانے سے فرمایا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تسحروا فان فی السحور برکة. (صحیح البخاری :رقم حدیث: 1823)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: سحری کھایا کرو‘ کیونکہ سحری میں برکت ہے۔

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

السحور کله برکة فلا تدعوه.(مسند احمد بن حنبل‘ 3: 12)

حضرت ابوسعید خدری ﷜ سے روایت ہے کہ سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو۔

حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ سحری کرنے والے پراللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں۔

فان اللّٰه و ملائکته یصلون علی المستحرین.(مسند احمد بن حنبل‘ 3: 12)

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتیں ناز ل کرتے ہیں۔

روزے میں سحری کو بلاشبہ بہت اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ حضور ﷺ نے امت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کھایا کرو‘ خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو۔ آپ ﷺ کا یہ معمول تھا کہ سحری آخری وقت میں تناول فرمایا کرتے تھے۔ گویا سحری کا آخری لمحات میں کھانا حضور ﷺ کی سنت ہے۔

دن کو قیلولہ کرنا

استعینوا بطعام السحر علی صیام النهار و بقیلولة النهار علی قیام اللیل. (سنن ابن ماجه:رقم حدیث: 1693)

حضرت ابن عباس ﷠  سے روایت ہے  کہ رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: دن کو قیلولہ کرکے رات کی نماز کے لئے مدد حاصل کرو اور سحری کھا کر دن کے روزے کی قوت حاصل کرو۔

سحری کرنے میں تاخیر اور افطاری کرنے میں جلدی آنحضور ﷺ کا زندگی بھر معمول رہا۔ جس کے راوی حضرت سہل بن سعد ﷜ہیں‘وہ فرماتے ہیں:

ﷺ لا یزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر.(صحیح مسلم‘رقم حدیث: 1098)

سحری میں تاخیر

حضور نبی کریم ﷺ سحری تناول فرمانے میں تاخیر کرتے یعنی طلوع فجر کے قریب سحری کرتے تھے۔

عن ابن عباس قال‘ قال: رسول اللّٰه ﷺ امرنا ان تعجل افطارنا نوخر سحورنا.(السنن الکبری‘ 4: 238)

حضور ﷺ  کھجور سے روزہ افطار فرماتے تھے

حضور ﷺ اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے۔ اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرما لیتے تھے۔ حضرت سلیمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اذا افطر احکم فلیفطر علی تمر فانه برکة فان لم یجد فلیفطر علی ماءٍ فانه طهور.( جامع الترمذی‘ رقم حدیث: 658)

جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے۔

 مغرب و عشا کے درمیان غسل فرمانا

ان رسول الله ﷺ إذا كان رمضان قام و نام فإذا دخل العشر شد المئزر و اجتنب النساء و اغتسل بين الأذانين و جعل العشاء سحورا

رسول اکرم ﷺ رمضان میں قیام بھی کرتے اور استراحت بھی فرماتے ، لیکن جب آخری عشرہ آجاتا  تو آپ ﷺ کمر کس لیتے اور عورتوں سے دور رہتے اور دواذانوں (مغرب اورعشاء) کے درمیان غسل فرماتے  اور آپ ﷺ عشائیہ کو سحری کے وقت فرماتے۔

حضرت حذیفہ ﷜ نے آپﷺ کے ساتھ قیام رمضان کیا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے غسل فرمایا، رمضان کی رات کو غسل کرکے، عمدہ لباس پہنتے تھے اور خوشبو لگانے کا اہتمام کرتے تھے۔ لطائف المعارف میں اوربھی کئی اکابرین کے مختلف معمولات درج کیے گئے ہیں۔

 معمول قیامِ رمضان

آنحضرت ﷺ کا دوسرا مبارک معمول رمضان کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ کھڑے رہنے اور نماز‘ تسبیح و تہلیل اور ذکر الہی میں محویت سے عبارت ہے۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے‘ اسی معمول کا حصہ تھی۔ حضور ﷺ نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے باب میں ارشاد فرمایا:

فمن صامه و قامه ایماناً و احتسابا خرج من ذنوبه کیوم ولدته امه.(سنن نسائی‘رقم حدیث: 2208)

جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو جاتا ہے‘ جس دن وہ بطنِ مادر سے پیدا ہوتے وقت بے گناہ تھا۔

اس ارشاد گرامی کی رو سے روزے کے آداب کی بجا آوری اور اس میں عبادت اور ذکر الٰہی کے لئے کھڑے رہنے سے انسان کے گناہ بارگاہ ایزدی کے عفو و کرم سے اس طرح مٹا دیئے جاتے ہیں‘ گویا وہ ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہو ا ہو۔ رات کے قیام کے لئے جو محبوب عمل سنت نبوی سے ثابت ہے نماز تروایح ہے جس میں قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے۔

آنحضور ﷺ کا دورانِ رمضان المبارک ایک بار ختمِ قرآن کا معمول تھا اور آپ ﷺ نے امت کو بھی اسی اعتدال پر چلنے کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔ اسلام سادہ اور فطرت سے ہم آہنگ دین ہے اور تعلیماتِ مصطفوی ﷺ میں بھی اسی فطری سادگی کی جھلک نظر آتی ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے دین میں تنگی پیدا نہ کرو۔ اسی لئے ہر امتی کی سہولت کے پیش نظر آپ ﷺ ماہ صیام میں ایک بار قرآن پاک ختم کرنے کے معمول پر زندگی بھر کاربند رہے‘ ورنہ اگر آپ ﷺ چاہتے تو رمضان المبارک میں ہزارہا قرآن ختم کر سکتے تھے۔

دوران رمضان حضور ﷺ اور جبرائیل علیہ السلام کے دورہ ختم قرآن کا معمول

صحیحین کی متفق علیہ حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر رمضان المبارک میں رات کے وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن پاک کا دور کرنے کے لئے آقائے دوجہاں ﷺ کے حجرہ مبارکہ میں تشریف لاتے۔ جہاں باری باری ان دونوں ہستیوں میں سے ایک کلام پاک کی تلاوت کرتی تو دوسری سماعت فرماتی۔ یہ معمول ہر رمضان میں جاری رہا‘ یہاں تک کہ وصال مبارک سے پہلے آخری رمضان آیا تو آپ ﷺ نے سابقہ معمول کے برعکس دو مرتبہ قرآن پاک کا دور جبرائیل علیہ السلام کی معیت میں فرمایا۔ حفاظ و قرآء کرام کی کتنی خوش قسمتی ہے کہ وہ دوران تراویح ہر رمضان میں قرآت اور سماعت کا فریضہ ادا کر کے بیک وقت آنحضور ﷺ اور جبرائیل علیہ السلام کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔

 معمول تہجد

رمضان المبارک کے دوران حضور اکرم ﷺ کی نماز تہجد کی ادائیگی کے بارے میں معمول مبارک یہ تھا کہ آپ ﷺ نماز تہجد میں آٹھ رکعت ادا فرماتے‘ جس میں وتر شامل کر کے کل گیارہ رکعتیں بن جاتیں۔ تہجد کا یہی مسنون طریقہ آنحضور ﷺ سے منسوب ہے۔

رمضان المبارک کی راتوں میں حضور اکرم ﷺ کا معمول یہ تھا کہ آپ ﷺ نماز عشاء و تراویح ادا کرنے کے بعد سونے کے لئے تشریف لے جاتے‘پھر رات کے کسی حصے میں نماز تہجد کے لئے بیدار ہوتے تو بشمول وتر گیارہ رکعتیں نماز کی ادا فرماتے۔

نماز تہجد کے لئے نماز عشاء کے بعد کچھ سونا شرط اور مسنون ہے‘ یہی عمل افضل و مستحب ہے‘ جو سنت ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سنتِ صالحین سلف سے ثابت ہے‘ بغیر نیند کے نماز تہجد کا ادا کرنا مکروہ ہے۔

 کثرتِ صدقات و خیرات

حضور نبی کریم ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ وہ صدقہ و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ کوئی سوالی ان کے در سے خالی نہیں لوٹتا تھا۔ لیکن رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی مقدار باقی مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہوجاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکتے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:

فاذا لقیه جبریل علیه السلام کان رسول اﷲ صلی الله علیہ وآله وسلم اجود بالخیر من الریح المرسلة. (صحیح البخاری‘رقم حدیث: 1803)

جب جبریل امین آجاتے تو آپ کی سخاوت کی برکات کا مقابلہ تیز ہوا نہ کرپاتی۔

حضرت جبریل علیہ السلام چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام محبت لیکر آتے تھے۔ رمضان المبارک میں چونکہ عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے۔ اس لئے حضور نبی کریم ﷺ ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے۔

جس کا تذکرہ امام نووی ﷬ یوں فرماتے ہیں:

و فی هذا الحدیث فوائد منها بیان عظیم جوده ﷺ و منها استحباب اکنار الجود فی رمضان و منها زیاده الجود والخیر عند ملاقاة الصالحین و عقب فراقهم للتآثر بلقائهم و منها استحباب مدارسة القرآن.(شرح نووی‘ 15: 69)

آپ ﷺ کی جو دو سخا کا بیان

رمضان المبارک میں کثرت سے صدقہ و خیرات کے پسندیدہ عمل ہونے کا بیان

نیک بندوں کی ملاقات پر جو د و سخا اور خیرات ہونے کا بیان

نیک بندوں سے ملنے کے بعد ان کی ملاقات کی خوشی میں صدقہ و خیرات۔

قران مجید کے شرح درس و تدریس کے لئے مذرس کے قیام کا جواز۔

 معمول اعتکاف

رمضان المبارک میں حضور نبی کریم ﷺ بڑی باقاعدگی کے ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ زیادہ تر آپ ﷺ آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے‘ کبھی کبھار آپ ﷺ نے پہلے اور دوسرے عشرے میںبھی اعتکاف فرمایا۔ لیکن جب حضور نبی کریم ﷺ کومطلع کر دیا گیاکہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ آخری عشرے میں ہی اعتکاف فرمایا۔

حضرت عائشہ صدیقہ ﷝آپ کے معمولِ اعتکاف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں:

ان النبی کان یعتکف العشر الآواخر من رمضان حتی توفاه اللّٰه تعالیٰ. (صحیح البخاری‘رقم حدیث: 1922)

حضور نبی کریم ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔

حضور نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ آخری عشرہ کے علاوہ رمضان المبارک کے پہلے اور دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف فرمایا۔

عن ابی سعید الخدری قال ان رسول اللّٰه ﷺ اعتکف العشر الاول من رمضان ثم اعتکف العشر الاوسط فی قبة ترکیة علی سدتھا حصیر قال: فاخذ الحصیر بیده فنحاها فی ناحیة القبة ثم اطلع راسه فکلم الناس فدنوا منه فقال: انی اعتکف العشر الاول التمس هذه اللیلة ثم اعتکف العشر الاوسط ثم اتیت فقیل لی: انها فی العشر الآواخر فمن احب منکم ان یعتکف فلیعتکف.(صحیح لمسلم‘رقم حدیث: 1167)

حضرت ابو سعید الخدری ﷜سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے رمضان المبارک کا پہلا عشرہ اعتکاف فرمایا‘ پھرآپ ﷺ نے درمیانی عشرہ اعتکاف فرمایا اور یہ اعتکاف ایسے ترکی خیمہ میں تھا جس کے دروازے پر بطور پردہ چٹائی تھی جس کو آپ ﷺ نے مبارک ہاتھ سے پکڑ کر خیمہ کی طرف ہٹا یا اور پھر اپنا سر اقدس نکال کر صحابہ کرام کو اپنے قریب آنے کے لئے فرمایا جب وہ قریب آگئے تو فرمایا جب وہ قریب آگئے تو فرمایا میں نے لیلۃ القدرکی تلاش میں پہلاعشرہ اعتکاف کیا‘ پھر میں نے درمیانی عشرہ اعتکاف کیا‘ پھر مجھے بتایا گیا کہ وہ آخری عشرہ میں ہے۔ تم میں سے جو اعتکاف جاری رکھنا چاہتا ہے وہ اسے جاری رکھے۔

وصال مبارک کے سال آپ ﷺ نے بیس دن اعتکاف فرمایا:

عن ابی هریرة قال: کان النبی ﷺ یعتکف فی کل رمضان عشرة ایام‘ فلما کان العام الذی قبض فیه اعتکف عشرین یوماً.(صحیح البخاری‘رقم حدیث: 1939)

حضرت ابوہریرہ ﷜سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ ہر سال رمضان المبارک میں دس دن تک اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ لیکن جس سال آپ ﷺ نے وصال فرمایا اس سال آپ ﷺ نے بیس دن تک معتکف رہے۔

اعتکاف میں انسان دنیاوی معاملات سے علیحدگی اختیار کرکے خدا کی رضا کی تلاش میں گوشۂ تنہائی اختیار کرتا ہے۔ صوفیاء کرام اور اولیاء کرام حضور نبی کریم ﷺ کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی میں چلہ کشی کے عمل کو اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ اس عمل کے ذریعے خدا کو راضی کرسکیں اور تزکیہ نفس کے مقام کو حاصل کرسکیں۔

آخری عشرہ کا معمول

عن عائشة -- قالت: كان رسول الله -ﷺ إذا دَخَلَ العَشْرُ أَحْيَا الليلَ، وأَيْقَظَ أَهْلَهُ، وَجَدَّ وَشَدَّ المِئْزَرَ.

عائشہ ﷜سے مروی ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسول اللہ ﷺ شب بیداری کرتے، اپنے گھر والوں کو بھی اس کے لیے جگاتے اور (عبادت میں) کوشش کرتے اور کمر کس لیتے۔