Tuesday, March 9, 2021

جامع العلوم ومرکز عشق و عقل شخصیت




جامع العلوم ومرکز عشق و عقل شخصیت

محمد سرفراز صابری: پرنسپل الجامعۃ العلیمیۃ الاسلامیۃ

ڈاکٹر حافظ محمد فضل الرحمن الانصاری القادری علیہ الرحمہ درس نظامی کے فاضل ،قرآن حکیم ،حدیث نبوی ؐ فقہ اورکلام میں وسعت نگاہ کے حامل، جدید سائنسی مضامین طبعیات(فزکس) ریاضیات وحیاتیات میں ماہر، علوم عمرانی، تاریخ ،معاشیات ،سیاسیات ونفسیات میں بھی کامل تھے۔آپ نے تمام عصری علوم کی تحصیل دین اسلام کے حقائق ورموز پر عبورحاصل کرنے کی نیت صالحہ سے کی تھی۔ شاید اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس صدی میں دورحاضر کے تقاضوں کو مدنظررکھتے ہوئے علوم قرآنیہ کے بیان وترویج ہی کے لئے ڈاکٹرحافظ محمد فضل الرحمن انصاری القادری کوپیدافرمایا تھا۔ اس بے مثال جامعیت کے ساتھ ساتھ صوفیاء کرام کے مشہور سلاسل اربعہ قادریہ، چشتیہ، سہروردیہ اور شاذلیہ کے تربیت یافتہ ،مسند بیعت وارشاد پرفائزتھے۔آپ کی ذات وہ مرکز تھی جہاں عشق وعقل دونوں آکرملتے ہیں سیاح عالم ،عظیم مبلغ شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی القادری رحمۃ اللہ علیہ کی چشم کرم نے ڈاکٹر محمد فضل الرحمن انصاری صاحب کے قلب ودماغ کو حضور اکرم ؐ کی محبت کے نورسے منور کیا تھا۔الغرض اس صدی کے ایسے عظیم مفکر اورمبلغ دین تھے جن کے بدل کی تلاش میں نگاہیں ایڑیاں اٹھا کر ہرسواٹھتی اور مایوس لوٹ آتی ہےں۔بقول اقبال

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ورپیدا
ڈاکٹرحافظ محمد فضل الرحمن انصاری صاحب انگریزی زبان میں سحرانگیزتقریر فرماتے تھے، یورپ اورامریکہ کے دانشوروں،ادیبوں،شاعروں،فلسفیوں کے مجمع میں بارہا آپ نے تقاریرفرمائیں جس سے بے شمار اہل قلم و دانش آپ علیہ الرحمہ کی سحر انگیز تقریر سے متاثر ہوکرحلقہ بگوش اسلام ہوئے۔
بحیثیت مصنف آپ انگریزی اوراردو زبان کے ایک مشاق قلم کار تھے۔بالخصوص مغربی اقوام میں اسلام کی اشاعت کے لئے آپ نے اپنی تصنیفات میں انگریزی زبان ہی کو استعمال کیا ہے۔ آپ نے اپنی پہلی تصنیف The Beacon Light ”مشعل راہ” اٹھارہ برس کی عمرمیں پیش فرمائی تھی۔
ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ کے دل میں اسلام اورملک کی محبت تھی ۔ تمام مذاہب اور مشرقی ومغربی علوم کے ماہر تھے،اسی مہارت علمی اورفراست مومنانہ کے سبب آپ نے اسلام کی اصل روح کوبہترین شکل میں پیش کیا، آپ اپنے مقصد میں کامیاب رہے کیونکہ بہت سے غیرمسلم ان کی فراست ،بصیرت، خلوص محبت اور جذبہ کو دیکھتے ہوئے اسلام لائے اور انہیں خوبیوں کی وجہ سے آپ اسلامی دنیا میں بہت بڑا مقام رکھتے تھے۔
ڈاکٹرمحمد فضل الرحمن انصاری رحمۃ اللہ علیہ بے انتہا محنتی، جفاکش اور جذبہ خدمت اسلام سے سرشار تھے۔ آپ نے اپنی تحقیق اور علمی جدوجہد کو رواں دواں رکھا اور عظیم مسلم جامعہ ہی سے ڈاکٹریٹ کی کوششیں جاری کردیں۔ (ڈاکٹرآف فلاسفی) کے محقق کی حیثیت سے پانچ سال فلسفہ جدید کی روشنی میں اسلام کے مابعد الطبیعی اور اخلاقی فلسفہ پر کام کرتے ہوئے قرآن مجید ، حدیث فقہ اور اسلامی فکر پر وسیع وبلند پایہ تحقیق کا کام کیا۔ ”اسلامی اخلاقی ضابطہ اور اس کا مابعد الطبیعاتی پس منظر”Islamic Code Of Moral And Its Meta Physical Back Ground، کے نام سے اپنا مقالہ پیش فرمایا۔
اس عظیم تحقیقی مقالہ پر آپ نے انتھک لگن اور جستجوکے ساتھ تحقیق کا حق اداکیا اوربالآخر ١٩٧٠ء میں آپ نے Ph.D. پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ترین تعلیمی و تحقیقی سند حاصل کی۔ اس تحقیقی کام پر ممتاز عالم ، ڈاکٹر منظور احمد صاحب سابق سربراہ شعبہ فلاسفی، کراچی یونیورسٹی نے کہا:
It is, indeed a comprehensive account of the moral code provided by the Quran, alike of which, to my knowledge has not been formulated with such extensiveness by anyone in the history of Muslim literature.
”یہ درحقیقت قرآن کے پیش کردہ اخلاقی ضابطہ کی جامع تفصیل ہے۔مسلم ادب کی تاریخ میں دقت نظری اور وسعت علمی سے لکھی گئی اس کتاب کی کوئی نظیر میرے علم میں نہیں ہے۔”
ڈاکٹرحافظ محمد فضل الرحمن انصاریؒ نے حضرت شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی القادری ؒ کے ساتھ صرف ایک مبلغ صحافی اور مصنف کی حیثیت سے ہی تعاون نہیں کیا بلکہ بیرونی ممالک میں ایک عملی مبلغ کی حیثیت سے بھی تعاون فرما یا۔جس کا آغاز١٩٣٧ء کے پہلے بین الاقوامی تبلیغی مشن سنگاپور اور ملایا سے شروع ہوتا ہے ۔ آپ اپنے مرشدکریم حضرت شاہ محمدعبدالعلیم صدیقی القادری میرٹھیؒ کے حکم پر سنگاپور اور ملایا کے سفر پر تشریف لے گئے۔اس تبلیغی سفرمیں حضرت انصاری صاحب نے جس شاندار انداز سے اپنے فرائض کوانجام دیا اس کی مثال ہم اس واقعہ سے یوں دے سکتے ہیں:
ماہ اپریل ١٩٣٨ء میں ایک قانون کا مسودہ موسومہ ”ملایا کی وفاقی ریاستوں کے لئے حدود شرعی کا قانون” وہاں کی وفاقی قانون ساز اسمبلی میں پیش ہوا اس کا پیش ہوناتھا کہ سنگاپور اورملایا کے اخبارات میں اس کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑاہوا۔ اکثر وبیشتر اخبارات غیرمسلموں کے تھے انہوں نے نہ صرف اس قانون ہی کی مخالفت کی بلکہ اسلام کو موردِ طعن بھی بنایا۔ مشرق بعید کے سب سے اہم روزنامہ ”اسٹریٹس ٹائمز” نے حملے کا آغاز کیا اور پہلا ہی اداریہ اس عنوان سے لکھا ہے ”مسجد جائیے یا جیل ” دوسرے اخبارات بھی خدا بیزری اور اسلام دشمنی میں پیچھے نہ رہے۔ اس کی قیادت نامور انگریز اورچینی صحافی اور سیاست دان کررہے تھے اس لئے طوفان برابر بڑھتاگیا۔ دوسری جانب اس قانون کی حمایت انتہائی کمزور تھی۔ چند مسلم صحافی بھی اس طوفان میں بہہ چکے تھے کمزوری کی کیفیت مسلسل بڑھتی رہی تا آنکہ ڈاکٹر انصاری صاحب اس قانون کی حمایت کے لئے کھڑے ہوئے۔آپ نے ایک طویل فاضلانہ مقالہ لکھا جس میں مخالفین کے ایک ایک اعتراض کا دندان شکن جواب دیتے ہوئے اسلامی قوانین اور ان کے فلسفہ کی برتری کوثابت کیا۔
ڈاکٹر حافظ محمد فضل الرحمن انصاری کی عمر اس وقت ٢٤ سال تھی۔ لیکن مقالہ اس قدر بلند پایہ تھا کہ سب سے بڑے مخالف اخبار ”اسٹریٹس ٹائمز” ہی نے اس کو ممتاز طریقہ پر چھاپا اور محض چھاپا ہی نہیں بلکہ اس کے نامور انگریز ایڈیٹر نے اس کے دلائل کے وزن کااعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹرحافظ محمد فضل الرحمن انصاری القادری ؒ کو ”دقیق نظر اوروسیع علم رکھنے والامنطقی” کے لقب سے یاد کیا۔
یہی وہ وقت تھا کہ شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی القادری نے اپنے پیارے داماد کوبطور مریدنہ صرف تمام سلسلوں میں قبول کیا( مثلاً قادریہ،چشتیہ،نقشبندیہ، سہروردیہ اور شاذلیہ )بلکہ آپ کو اجازت اور سندبھی عطاکی ۔یہ سب معاملات حطیم کعبہ میں اداکئے گئے اور اس طرح آپ کو روحانی امور سرانجام دینے کی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئیں۔
ڈاکٹر حافظ محمد فضل الرحمن انصاری علیہ الرحمہ ایک عرصہ تک حضرت شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی کے زیر تربیت رہے اور ہر قسم کی اعلیٰ تربیت حاصل کی جو ایک ممتازاورجہاندیدہ مبلغ اسلام ، عظیم عالم دین شاہ محمد عبدالعلیم صدیقی القادری میرٹھی دے سکتے تھے۔ اپنے مرشد کریم کے زیر سایہ ١٩٣٢ء سے لے کرآپ علیہ الرحمہ کی وفات تک ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری وہ واحد شخصیت تھے جو پوری دنیا میں شاہ عبدالعلیم صدیقی کے دستِ راست رہے ۔ڈاکٹر انصاری علیہ الرحمہ اسلامی تبلیغی مشن کے بہترین ادیب اورمصنف تھے اورعملی تبلیغی میدان میں عظیم مبلغ تھے۔یہی وجہ ہے کہ سیاح عالم مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی علیہ الرحمۃ کے ١٩٥٤ء میں وفات پانے کے بعد تمام حلقہ علیمیہ نے ٣٠ جنوری ١٩٥٥ء کو حافظ محمد فضل الرحمن انصاری القادری کوشاہ عبدالعلیم صدیقی القادری میرٹھی ؒ کا بڑاخلیفہئ مجاز یا امیرمنتخب کیا۔
آپ جدید مادیت،سوشلزم اور عیسائیت کے خلاف برسرپیکار رہے اورآپ نے مسلمانوں کو ان تمام باطل ازم سے موڑ کرقرآن مجید اورحضور اکرم ؐ کی سیرت طیبہ کی طرف مائل کیا اور اس کے لئے آپ نے ایک نعرہ بھی بلند فرمایاجو عالمگیر شہرت کا حامل ہے۔”پلٹ آئیں قرآن کی طرف اورپلٹ آئیں محمد ؐ کی طرف ۔”
بحیثیت مجموعی ڈاکٹر حافظ محمد فضل الرحمن انصاری القادری ؒ کی شخصیت ایک اعلیٰ مدبر ،مقرر، مفکر، مبلغ اسلام، معلم، مصنف، روحانی شخصیت اور عصر حاضر میں لوگوں کے لئے بہتری کردار کاایک جیتا جاگتا نمونہ تھی۔آپ کی ساری زندگی تعلیم وتبلیغ اسلام میں گزری ،آپ اپنے دور کے بہترین سحرانگیزمقررتھے۔ تقریر کے علاوہ تحریر میں بھی آپ نے اپنی صلاحتیوںکالوہا منوایا۔ آپ بلند پایہ افکار اورمقصدیت کے حامل جاذب اسلوب ادیب تھے۔ آپ نے بیس سے زیادہ کتب تصنیف و تالیف فرمائیں۔ اسلام کے بہترین داعی تھے اور تمام دنیا کا پانچ بارتفصیلی تبلیغی دورہ کرنے کامنفرد اعزازپانے والی شخصیت جو مشرق و مغرب یعنی ایشیا،افریقہ ،امریکہ اور یورپ میں بے حد مقبول تھیں۔
تین جون ١٩٧٤ء کوآپ علیہ الرحمہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔جس تبلیغی مشن اورخدمت خلق کا آغاز آپ نے ١٩٥٨ء میں کیاتھا اس مشن کا عَلم آپ ہی کے صاحبزادے جناب مصطفیٰ فاضل انصاری صاحب کے ہاتھ میں ہے ۔جو اپنے والد ماجد کے عظیم مشن کو آگے بڑھانے کے لئے شب و روزاپنی تمام ترتوانائیاں صرف فرمارہے ہیں۔اللہ رب العزت حضرت صاحبزادہ صاحب کا سایہ عاطفت اس ادارے پر تادیر قائم رکھے۔آمین

No comments:

Post a Comment